سوچا ہے کہ بکنے کو میں بازار میں آؤں
دو چار حسینوں سے ملاقات تو ہو گی
یوسف نہ سہی مصر کے بازار میں بیچو
میں بک نہ سکا پھر بھی کچھ اوقات تو ہو گی
کوتوالیئے شہر کا آیا ہے بلاوا
کچھ دن ہی سہی مفت مدارات تو ہو گی
میں وقت کا منصور ہوں ہو مجھ کو اجازت
نعرۂ مستانہ نہیں مناجات تو ہو گی
اب قدرتی آفات سے مخلوق مرے گی
کیڑوں کے لیے گوشت کی بہتات تو ہو گی
مایوس ہوں پھر بھی نیا پن کوئی ڈھونڈوں
نیا دن نہ ہوا پھر بھی نئی رات تو ہو گی
صحراؤں میں بھٹکا ہوں سرابوں کا ہوں مارا
امید مگر ہے کبھی برسات تو ہو گی
کچھ ایسے کیے کام بہت نام رہے گا
باتوں میں بڑے لوگوں کی اب بات تو ہو گی

0
78