سوچا ہے کہ بکنے کو میں بازار میں آؤں |
دو چار حسینوں سے ملاقات تو ہو گی |
یوسف نہ سہی مصر کے بازار میں بیچو |
میں بک نہ سکا پھر بھی کچھ اوقات تو ہو گی |
کوتوالیئے شہر کا آیا ہے بلاوا |
کچھ دن ہی سہی مفت مدارات تو ہو گی |
میں وقت کا منصور ہوں ہو مجھ کو اجازت |
نعرۂ مستانہ نہیں مناجات تو ہو گی |
اب قدرتی آفات سے مخلوق مرے گی |
کیڑوں کے لیے گوشت کی بہتات تو ہو گی |
مایوس ہوں پھر بھی نیا پن کوئی ڈھونڈوں |
نیا دن نہ ہوا پھر بھی نئی رات تو ہو گی |
صحراؤں میں بھٹکا ہوں سرابوں کا ہوں مارا |
امید مگر ہے کبھی برسات تو ہو گی |
کچھ ایسے کیے کام بہت نام رہے گا |
باتوں میں بڑے لوگوں کی اب بات تو ہو گی |
معلومات