دل چیخ اٹھا سوز و تب و تاب سے آخر
میں کیوں نہ ہوا خالدؓ و حیدرؓ کا معاصر
جس راہ کا رخ شوکتِ اسلام فقط تھا
اس راہ کا میں کیوں نہ ہوا رہرو، مسافر
یہ حسرتِ دیرینہ مری بر نہیں آئی
میں ہو نہ سکا دینِ محمدﷺ کا مہاجر
تصویر مری حمزہؓ و عثمؓاں سی بناتے
اے کاملِ فن بزمِ دو عالم کے مصور
ایوبؔی صفت خوگرِ میدان بناتے
ہوتی مری ہستی بھی ترے دین کی ناصر
نہ محفلِ غزنیؔ کا ہوا شمعِ فروزاں
غورؔی کی معیت سی بھی ناچیز تھا قاصر
میں دورِ سلاطیں کا کوئی شاہؔ جو ہوتا
ہوتے مری دولت سے ترے فیصلے صادر
میں تیرے لیے بزمِ دوعالم کو جھکاتا
ہوتے جو تسلط میں مرے چاروں عناصر
ہوتی میری قسمت کہ میں ہوتا ترا بازو
بیشک کہ تری ذات تھی ہاں اس پہ بھی قادر
کیا رازِ امم تیری مشیت میں ہے پنہا
کر مجھ پہ عیاں راز تو اے باطن و ظاہر
یہ آئی صدا غیب سے فطرت کے اے شاعر
کیا ہو نہ سکا دل پہ ترے راز یہ ظاہر
تھے اس کے معاصر میں ابو جؔہل و امیؔہ
کیا ہوتا اگر ان میں سے ہوتا تو بھی کافر
تسلیم و رضا شکر کے سجدے بھی بجا لا
پیدا تو ہوا امتِ احمد ﷺ میں ہی آخر
ٹیپوؔ کی جسارت کو فراموش نہ کرنا
ہر صبح نئی شان نئی آن ہو ظاہر
وہ جنگ و جدل تیغ و سناں رہنے دو اب کی
یہ دورِ سیاست ہے چلو چال اے شاطر !
اس دور میں ایوبؔی وہی شوخ جواں ہے
ہے جس کی جواں سالی مرے دین کی خاطر
ہے تیرے لیے معرکۂ ہند و فلسطیں
ہو مردِ مجاہد تو دکھا اپنے جواہر
ہر شخص کی خواہش ہے کہ وہ حاکمِ کل ہو
پر میرے لئے کون کرے جان کو حاضر
پہلے کہ لہو میں ہو ترے گردشِ افلاک
پھر تیرا گلہ ہوگا مرے دیر میں حاضر
آتی ہے مجھے گندھ ترے روح و بدن سے
شاہؔی تو سمجھتا ہے تو ہے پاکیزہ و طاہر

1
60
شکریہ