کتنا حسیں ہے اس کا جو انتخاب ہے
طالب نبی کے در کا ہی کامیاب ہے
لطفِ نبی سے اس کو ایسی طلب ملی
عمدہ سہانا ہے یہ جو اضطراب ہے
گر دھول بھی ہوا وہ دلبر کی راہ میں
ہر ایک گام اس کا کارِ ثواب ہے
ہے ضوفشانی ان سے اس کائنات کی
جگمگ انہیں کے دم سے یہ ماہتاب ہے
پلٹا قدم سے الٹا جنبش سے انگلی کی
روشن فضا میں دیکھو جو آفتاب ہے
منظر چمن میں ہمدم کتنے حسین ہیں
آقا کے دم سے ساری یہ آب و تاب ہے
رہتا ہے بھر کے دامن ان کے ہی فیض سے
جو بھی نبی کی مجلس میں باریاب ہے
محمود جائیں بطحا مل کر کریں دعا
آقا کے اس کرم سے جو بے حساب ہے

34