منظر حسیں ہیں سارے دلبر کے ہی نگر میں
ہے شان زائروں کی اس شہر کے سفر میں
ذرے جو راہ میں تھے میں نے اٹھائے ہیں یوں
سارے رکھے سنبھل کر دھیرے سے ہیں نظر میں
ہے دردِ عشقِ جاں جب آیا کسی کے دل میں
الطاف ان کے آئے یک دم اسی کے گھر میں
رحمت کے باراں آئے میزابِ کرم دیکھو
یہ کہہ رہے ہیں آنسو اب دیکھ دیدہ تر میں
ہے ایک وقت ایسا یہ دہر تھم گیا تھا
ہمت نہ اڑنے کی تھی جبریل کے بھی پر میں
ہے حسنِ خلد ہمدم ہر جا ملا نظر کو
محمود روپ دیکھو ہے روضہ کے بھی در میں

34