عادت ہمیں جو پڑ گئی ہے تیرے پیار کی |
اب ہر گھڑی کٹھن ہوئی ہے انتظار کی |
پھر سے ترے وصال کا سامان جلد ہو |
آقا دعا ترے لئے دیوانہ وار کی |
وہ آ گئے ہیں دن جو گزرتے تھے تیرے ساتھ |
ایسے میں ملا قات بھی تو بار بار کی |
تیری حسین یادیں بڑھاتی ہیں اضطراب |
دھڑکن کو کون تھامے دلِ بے قرار کی |
گل یاں چمن کی تیرے بنا سب اداس ہیں |
گلشن نے اپنے گِرد فضا سوگوار کی |
کلیوں کو مُسکرانے کی عادت نہیں رہی |
پھولوں کو ڈھانپ بیٹھی ہے اک باڑ خار کی |
آؤ تو مل کے گائیں گے نغمے بہار کے |
نفرت ہو دور ایسی ہو آواز پیار کی |
پھر گونج اُٹھے نعرۂ تکبیر سے فضا |
ہو ں پھر رسا دُعائیں تہجّد گزار کی |
طارق رہی ہے دل کی تمناّ یہی سدا |
آتی رہے صدا ہمیں رِضوانِ یار کی |
معلومات