نگاہِ شوق سے اثبات ہو نہیں پائی |
مری خودی کو ابھی مات ہو نہیں پائی |
وہ میرے شہر میں اترا تو خوب چرچا ہوا |
گئے تو ہم بھی ملا قا ت ہو نہیں پائی |
اگرچہ ابر گھٹا بن کے چھا گئے ہر سُو |
مرے چمن میں تو برسات ہو نہیں پائی |
زمانہ یاد تو رکھتا ہے اپنے مجرم کو |
مگر ابھی تو مکافات ہو نہیں پائی |
کبھی قریب سے گزرو تو یاد کر لینا |
گلی جو شہر کی دیہات ہو نہیں پائی |
وفا کے قصے سنے ہیں جو حوصلے کے لئے |
کہانی حصّۂ جذبات ہو نہیں پائی |
اگرچہ ساتھ رہے ہم کئی حوالوں سے |
ہماری ان سے کوئی بات ہو نہیں پائی |
میں شہر شہر سے لایا تھا یاد تحفے میں |
جو آئی گھر سے وہ سوغات ہو نہیں پائی |
نہیں ہے کوئی بھی شکوہ ملا نہ وہ مجھ سے |
کہ طارق اپنی یہ اوقات ہو نہیں پائی |
معلومات