ہم فقط ہاتھ میں قرطاس و قلم رکھتے ہیں |
جانے کیوں لوگ روا ظلم و ستم رکھتے ہیں |
سُود مندانِ بلا سے کوئی پوچھے تو سہی |
وہ بھی کیا مُردے جلانے کا دھرم رکھتے ہیں |
آ گئے آنے کو یہ ہم سے مگر مت پوچھو |
پیش کرنے کے ہیں قابل جو کرم رکھتے ہیں |
ہم نے بدلے نہیں پیمانے وفا کے کوئی |
ہم بہ ہر حال محبّت کا بھرم رکھتے ہیں |
کوئی مایوس ترے در سے نہ جاتا دیکھا |
جو بھی آ کر ترے کوچہ میں قدم رکھتے ہیں |
ہم فرشتوں سے ہوں بہتر یہ ضروری تو نہیں |
وہ تو آگاہئِ ملکِ عدم رکھتے ہیں |
جاں بہ لب دیکھ کے اس نے تو فقط اتنا کہا |
تشنگی اور ذرا دیر کہ دم رکھتے ہیں |
طارق آؤ تو ذرا جھانک کے دیکھیں دل میں |
کیا وہاں کعبہ میں ہم اب بھی صنم رکھتے ہیں |
معلومات