خیالوں میں ہوئے غرقاب ہیں کسی کے لئے |
سبب یہی ہوا حائل ہے تیرگی کے لئے |
ستا رہا ہے غمِ ہجر پھر بھی حرج نہیں |
اگر ہے تحفہ تو منظور عاشقی کے لئے |
فسانہ عشق وہی لکھ سکیں یہاں لہو سے |
لگی ہو آگ جگر میں جو دل لگی کے لئے |
بے دردی سے بھی جِھڑکنا بھلی ہے بات کہاں |
تڑپتے رہتے ہیں پر کتنے دلبری کے لئے |
ہو التفات کبھی بھولے سے مگر ہی سہی |
بے چین حد سے زیادہ ہیں دوستی کے لئے |
ادائیں شوخ سی ناصؔر ستم بپا کئے ہیں |
جھلک ہی کافی ہو سیراب تشنگی کے لئے |
معلومات