خیالوں میں ہوئے غرقاب ہیں کسی کے لئے
سبب یہی ہوا حائل ہے تیرگی کے لئے
ستا رہا ہے غمِ ہجر پھر بھی حرج نہیں
اگر ہے تحفہ تو منظور عاشقی کے لئے
فسانہ عشق وہی لکھ سکیں یہاں لہو سے
لگی ہو آگ جگر میں جو دل لگی کے لئے
بے دردی سے بھی جِھڑکنا بھلی ہے بات کہاں
تڑپتے رہتے ہیں پر کتنے دلبری کے لئے
ہو التفات کبھی بھولے سے مگر ہی سہی
بے چین حد سے زیادہ ہیں دوستی کے لئے
ادائیں شوخ سی ناصؔر ستم بپا کئے ہیں
جھلک ہی کافی ہو سیراب تشنگی کے لئے

96