وہ کیسے کیسے لوگ تھے کیا کیا نہ کر گئے
وہ تو ہمارے پیش رو تھے ہم کدھر گئے
جن کے سبب تھیں رونقیں، آباد محفلیں
ہم ڈھونڈتے ہیں اب کہاں وہ ہم سفر گئے
چلتا رہا ہے ساتھ ہمارے ہی قافلہ
کتنے ہی لوگ راہ میں چلتے ٹھہر گئے
جب ہم رُکے تھےکتنا سکوں پانیوں میں تھا
جب چل دئے تو کتنے سمندر بپھر گئے
چاہت کے پھول خشک ہوئے کب فراق سے
اشکوں سے جس قدر ہوئے ہیں تر سنور گئے
سپنوں کی وادیوں میں محبت ہے ہم سفر
ہم اس کا ہاتھ تھامے جہاں سے گزر گئے
طارق کڑے تھے امتحاں تو عشق میں بہت
ہر امتحاں میں روح کے رشتے نکھر گئے

0
65