او ستم گر تجھے ہوا کیا ہے
مجھ سے اب جو ہوئی خطا کیا ہے
میں تو خاموش ہو گیا کب سے
اب نہ پوچھو کہ مدعا کیا ہے
اب تو تیری طلب نہیں مجھ کو
ظلم مجھ پر یہ اب روا کیا ہے
تو یہ ظالم مجھے بتا ہی دے
تجھ کو یہ نشۂ انا کیا ہے
دل تو قدموں میں پھینک آیا تھا
میرے اندر یہ پھڑ پھڑا کیا ہے
تو لگاتا ہے پیار کی قیمت
تو نہیں جانتا وفا کیا ہے
پیار نیلام کر دیا تم نے
پیار میں اور اب رکھا کیا ہے
بے وفا کہہ کے تو بلاتا ہے
اور اب حرفِ ناروا کیا ہے
درد ایسا ہے جاں گزا اب کے
اور اس سے بری قضا کیا ہے

0
163