وصل کی آرزو لئے چہرے
گھر سے نکلےکھلے کھِلے چہرے
نورِ عرفاں سے جو ہوئے روشن
ٹمٹمائے نہ پھر بجھے چہرے
گرم جذبے تھے سرد راتوں نے
زرد ان کے نہیں کئے چہرے
آس رکھتے ہیں وہ جو ملنے کی
وہ دکھائی دئے سجے چہرے
وصل سے ہو گئے منوّر جو
مسکراتے ہیں سوچتے چہرے
تیز جب بھی چلیں مسافر تو
گرد آلود کچھ ہوئے چہرے
ہم جو ان کے قریب جا بیٹھے
ان کے فوراً بدل گئے چہرے
آنکھ کھولیں تو پھر نظر آئیں
منتظر لوگ ملگجے چہرے
کاش بدلیں وہ زندگی طارق
ہوں گے اک دن عیاں چھپے چہرے

0
47