بات دانائی کی ہم کرنے سے باز آتے نہیں
یوں اگر شکوہ کسی کو ہو تو گھبراتے نہیں
حیف ہے ان پر جنھیں ملتے ہیں بوڑھے والدین
کر کے خدمت ان کی پھر جنَّت میں وہ جاتے نہیں
یا جو پائیں ماہِ رمضاں تندرستی میں مگر
روزہ رکھ کر آگ سے دوزخ کی بچ جاتے نہیں
قُرب کا ملتا نہیں ہے وہ فرشتوں کو مقام
اشرف المخلوق جو انسان کہلاتے نہیں
ہو جو انساں سے فرشتوں سے نہ ہو راز و نیاز
حضرتِ انسان جیسا قُرب وہ پاتے نہیں
ابتلا دشمن کے ہاتھوں سے ہوں یا تقدیر سے
دوستی جن کی خدا سے ہو وہ گھبراتے نہیں
انَّا للّٰہ صبر سے پڑھ کر ہوں جب وہ سرخرو
ان پہ ان کے رب سے رحمت اور صلٰوت آتے نہیں
دائمی پاتے وہی ہیں اس جہاں میں زندگی
جان دینے سے خدا کی رہ میں شرماتے نہیں
اس کی رہ میں جینا مرنا ہو اگر طارق تِرا
نعمتیں جو بھی ملیں پھر ان کو ٹھکراتے نہیں

0
52