جو ملا اس سے دل لگی کر لی
کیا قناعت سے عاشقی کر لی!
فصلِ گل کو چُرا لیا تم نے
ہم نے کانٹوں سے دوستی کر لی
جب نہ بارش ہوئی تو صحرا میں
گل نے ، شبنم سے ہی نمی کر لی
دکھ دئیے جب ہمارے اپنوں نے
ساتھ غیروں کے بھی خوشی کر لی
تھا کڑا وقت ہم پہ جب ہم سے
دوستوں نے بھی دشمنی کر لی
کب کسی اور در پہ جھکنا تھا
جب خدا ہی کی بندگی کر لی
اپنی برداشت کو فزوں کر کے
ہم نے قابو میں خود سری کر لی
اب بھی ہم سے گلہ ہے جانے کیوں
سب سے جب صلح ، آشتی کر لی
حوصلہ جب تھا آگے بڑھنے کا
پھر کہاں ہم نے واپسی کر لی
شورِ محشر مچا کے رکھ دیتے
لب سئے ہم نے ، خامُشی کر لی
فخر، کبر و غرور دیکھا جب
سامنے اس کے عاجزی کر لی
بوکھلاہٹ جو دیکھی چہرے پر
ضبط ہم نے بھی پھر ہنسی کر لی
دیکھ کر اُن اداس آنکھوں میں
ہم نے محسوس بے بسی کر لی
ہم پہ الزام دو تو کیا تم نے
کر کے تحقیق ، آگہی کر لی؟
جیسا اس نے کہا ، کیا ہم نے
اس طرح ہم نے زندگی کر لی
طارق اتنا شعور باقی ہے
جو سُنی ہم نے ان سُنی کر لی

0
27