محبت کی راہوں پہ چلتا گیا
مرا وقت یوں ہی گزرتا گیا
زیاں کی نہ مجھ کو خبر ہی ہوئی
جو تھا ہاتھ میرے سرکتا گیا
مجھے زخم لگتے ہی لگتے گئے
مرا دم نکلتا نکلتا گیا
مرے بارے میں بات ہوتی رہی
یہ کہتے ہیں کندھن میں بنتا گیا
نہ مجھ پر ہوا تب کوئی بھی اثر
جو کہتے تھے سب میں وہ سنتا گیا
محبت کی دھوپیں یوں پڑتی رہیں
کہ چلتا گیا میں پگلتا گیا
سمجھ کر اداؤں کو تحفہ ترا
سمجھ بوجھ کو میں کچلتا گیا
وہ وعدے ترے بھی نہ پورے ہوئے
ہمایوں کا دل بھی بہلتا گیا
ہمایوں

0
13