مبتلا اب ہے پس و پیش میں جیون اپنا |
جبکہ آتا ہے نظر دنیا سے رفتن اپنا |
پیش کرنے کو وہاں ساتھ لیا کچھ بھی نہیں |
ہم تو دنیا سے لگا بیٹھے تھے تن من اپنا |
ہم نے پھولوں کی نگہداشت نہیں کی ورنہ |
آج کیوں سُونا نظر آتا یہ آنگن اپنا |
اس کو دیکھے گا مسافر تو یہیں آئے گا |
کب رکھا ہم نے دیا رات کو روشن اپنا |
ابر بن کے جو گھٹا دل پہ مرے چھائی ہے |
اب کے برسے گا بہت زور سے ساون اپنا |
دوستی میں تو تکلّف نہیں رکھا ہم نے |
ٹوٹ جائے نہ کہیں کانچ کا برتن اپنا |
کچھ تقاضے تو محبّت کے نبھائے ہم نے |
اتنی آسانی سے ٹوٹا نہیں بندھن اپنا |
بھول جائیں گے بھلا کیسے جوانی اپنی |
یاد ہم کرتے رہے روز ہی جوبن اپنا |
اب بھی الفاظ کے نشتر کی چبھن باقی ہے |
میں اسے دوست کہوں یا کہوں دشمن اپنا |
دوستی ظالم و مظلوم کی ہو سکتی نہیں |
رام کو کیسے لگے گا کبھی راون اپنا |
ہم نے کوشش تو بہت کی نہ کوئی داغ لگے |
پر نہیں دعویٰ رہا پاک ہے دامن اپنا |
آئینہ دل کا دکھا دیتا ہے چہرہ طارق |
سر جُھکاؤ گے تو ہو جائے گا درشن اپنا |
معلومات