سسکتا دل مرے سینے میں، کب سے جان مضطر ہے
امید و حسرت و افسوس و ارماں کا یہ پیکر ہے
ہوا بھی ننگ و عریاں ہے تصور کے گلستاں میں
ہیں سایے ، دھوپ ،بارش اور عجب پر کیف منظر ہے
شکوہِ کفر دیکھے تو بہاتا ہے یہ خونیں اشک
دلِ سیماب لیکن آج حیراں اور ششدر ہے
یہ پوچھا ہے مرے دل نے مری نوخیز ہستی سے
مسلمانوں کی حالت عصرِ حاضر میں کیوں بدتر ہے
بتاؤ کیا کہوں اس کو میں اس کو کیسے سمجھاؤں
کہ آلام و مصیبت ہی مسلماں کا مقدر ہے
یا یہ کہدوں کہ بہتر ہے یہاں مظلوم سے ظالم
یہاں پر کس قدر صاحبْ نظر انساں ستمگر ہے
اگر قوت نہیں ہے مومنِ میداں کے بازو میں
تو گردِ راہِ گلشن بھی کسی طوفاں سے بڑھ کر ہے
جہاں داری, جہاں گیری ,جہاں بانی, جہاں بینی
ہے مقصد بزمِ آرا کا کہ مومن کی ہو سلطانی
جہانِ آب و گل میں ہے حیاتِ جاوداں جس سے
وہ ذوقِ حسنِ زیبائی ادا و حسنِ رحمانی
زمینِ عالمِ انساں میں مومن کا یہی رتبہ
" خلیفہ انی جاعل" ہے پیامِ حق و قرآنی
ہے تعلیمِ خلافت روزِ اول سے مسلماں کو
ثباتِ دیں اسی سے ہے ، نفاذِ دینِ ربانی
سکھایے تجھ کو قرآں نے ہے آئینِ جہاں بانی
تیری فطرت میں رکھی ہے صفات و خوۓ سلطانی
عمل پیرا جو ہو جاۓ مسلماں دینِ احمدﷺ پر
تو چھا جائے گی پھر دنیا پہ تہذیبِ مسلمانی
شتر بانوں کی گودی میں ہے پالا تجھ کو قدرت نے
فتوحِ شام نے بخشی ہیں اندازِ شتربانی
صلاح الدینؒ ایوبی نے جرأت کا دیا پیغام
ہے مومن کی ظفر یابی سراسر عزمِ چٹانی
سحر نا آشنا شامیں زمانے کا مقدر ہے
نہ ہو پیدا حجابِ شب سے گر صبحِ قلندر ہے
گیا وہ دور جب تارے چلے آتے تھے آنگن میں
مگر یہ کیا پتہ تھا کہ وہ دورِ رفت پلبھر ہے
قمر خورشید کیا ہیں اس دیارِ فقر کے آگے
جہاں پر آکے جھک جاتا زمانے کا سکندر ہے
تنک تابی سے کرتا ہے جو روشن ظلمتِ شب کو
مری تقدیر کا روشن وہ اختر حسنِ دلبر ہے
مری ہستی کی اہمیت دیارِ غیر میں کیا ہو
اگر میرے تخیل میں نہ فکرِ بیش گوہر ہے
نہ مال و زر کی خواہش ہے نہ جاہ و مرتبہ کی چاہ
مگر جو شوق رکھتا ہوں میں وہ شوقِ سکندر ہے
جہانِ آب و گل میں کچھ نہیں راحت میسر کہ
سکونِ قلب ہے جس میں وہ شوق و ذوقِ لیڈر ہے
مرے بازو میں رکھی ہے خدا نے قوتِ طغرل
لہو میں گرمئی سلجوق رگوں میں خونِ سنجر ہے
بتاؤں تیری ہستی کائناتِ بزم میں کیا ہے
کہ عزم و حزم میں کیا ہے، حیاتِ رزم میں کیا ہے
گلستانِ جہاں میں سرخ لالہ شوخ منظر ہو
فضاۓ بزم میں بادِ سحر ہو بادِ انبر ہو
گلوں کی شوخیِ رنگیں شبابِ گلستاں ہو تم
چمن آراستہ جس سے درخشندہ وہ زیور ہو
حضورِ مسندِ عرفاں ، علمبردارِ قرآں تم
وفاۓ دینِ خاتم کا جہاں میں درسِ ازبر ہو
رسالت پاکِ اطہر کے مکاتب کے فلک بوسو!
سلاطینی کے دریا کا دمکتا لعل و گوہر ہو
عمؓر، صدیؓق و عثماؓں کی روش تیرے تخیل میں
حبیبِ احمؐد مرسل ﷺ ہو شانِ بدر و خیبر ہو
مٹایا جس نے فارس کو تہ و بالا کیا روما
سوارِ قادسیہ خالدِؓ جانباز حیدؓر ہو
تمہیں ہو فاتحِ اندلس، تمہیں موسٰاۓ افریقہ
جلادی کشتیاں جس نے وہ طارق ابنِ بربر ہو
محمد ابن قاسم ہو، قتیبہ ابن مسلم ہو
دیارِ ہـؔند میں محمود و شمس الدین و بابر ہو
تمہیں ہند و عرب کے پاسباں ہو ،رہنما ہو تم
تمہیں ہو ایشیا کے فخر ، اورنگزیبِ اصغر ہو
وہ جس کے نام سے برطانوی اب بھی دہل جائے
شکوہ و شانِ حیدر ہو جلالِ ٹیپو مظہر ہو
شبِ تاریک چھائی ہے فضاۓ عالمِ کن پر
ہو روشن جس سے یہ دنیا ،وہ روشن صبحِ اختر ہو
ہو ہنگامہ صفت طوفاں، تلاطم خیز ساغر ہو
کشاکش تند طوفاں کے بھنور میں موجِ مضطر ہو
ہو تعمیرِ خلافت کے مشدّد خشتِ اوّل تم
سیاست کی عمارت کا چمکتا سنگِ مرمر ہو
مگر تم سے شکایت ہے جو خود کو بھول بیٹھے ہو
زمانے کی فضا رنگین میں مشغول بیٹھے ہو
نسل ہو حکمرانوں کی عمل کشکول برداری
کہ شانِ بدر خندق پر مثالِ دھول بیٹھے ہو
جو غیرت مند ہوتے ہیں حیا سے ڈوب مرتے ہیں
مگر یہ تم سراپا ہو ہوۓ مقتول بیٹھے ہو
چمن کی آبیاری تھی مقدر اُن جوانوں کے
بنے گلشن میں تم لیکن ہو نازک پھول بیٹھے ہو
مثالِ قومِ مردہ تم اگر دنیا میں جی کر ہو
صفوں میں حکمرانوں کی بے دست و پا گداگر ہو
پرے ہیں آنکھ خوابوں سے عزائم نا شناسا ہو
جو گردِ راہِ منزل سے الگ ہیں تم وہ رہبر ہو
بھلے ہی دہر میں تم بھی بظاھر بزمِ مسلم ہو
مگر کہتا ہے دل میرا کہ تم آبا سے دیگر ہو
حیاتِ جاوداں کو چھوڑ کر دو پل کی لذت میں
بھلا بیٹھے ہو ماضی کو نئی تہذیبی خوگر ہو
نشیمن ہیں ترے رحم و کرم پہ غیر قوموں کے
جو اپنے آپ کا قاتل ہے خوں آلود خنجر ہو
دلِ امید لیکن جب بہت مایوس ہوتا ہے
سراپا بن کے دریا چشمِ گوہر بار روتا ہے
ہاں، روئیں کیوں نہیں آنکھیں مسلمانوں کی غفلت پر
کہ تلواریں ہیں گردن پر مگر غافل کہ سوتا ہے
بتاؤ کیا تمہیں اپنے گلستاں کی جواں سالی
یہاں کا باغباں ہر دن کلی کا خون پیتا ہے
کہیں گردن پڑی ہے اور کہیں اجزائے انسانی
گلی کوچوں میں دریا میں دمادم خون بہتا ہے
قرینہ شورشِ محشر ، سلیقہ جینے مرنے کا
نہ ہو جس میں جواں مردی جہاں میں کب وہ رہتا ہے
نہ خوں میں مستئ طوفاں نہ موجوں کی سی جولانی
تلاطم آشنا دریا بھلا ایسے ہی بہتا ہے
مگر امیدِ غالب ہے کہ اک دن مان جاؤ گے
ہاں، نقشِ پائے آبا کو کبھی پہچان جاؤ گے
ستارہ توڑ کر لانا ترا مقصد ازل سے ہے
ثریا کی بلندی کو کسی دن جان جاؤگے
نگاہوں کو ذرا کھولو کہ کیا کچھ ہو رہا ہے اب
نہ سمجھیں بات میری گر تو تم زندان جاؤ گے
اگر ہمت نہ کر پائے زمانے کے مقابل کی
نکالے ہند سے جاؤ گے پھر توران جاؤ گے
تمہیں مظلوم ہوگے اور کہا جائے گا ظالم بھی
بنائے ظلم کا لیکن تمہیں عنوان جاؤ گے
سراپا درد و حسرت کی کہانی پھر تری ہوگی
گھروں سے بے دخل ہو کر جو تم شمشان جاؤ گے
صفیں سیدھی کرو مؤمن کہ اب وقتِ قیام آیا
زمانے کو جگانے کے لئے ہی یہ پیام آیا
بنو مظلوم کی امید ظالم کے لئے ظالم
ہے اس سے دین و دنیا بھی جواں تیری صحیح سالم
اٹھو اب بھی تو بن سکتی ہیں پھر بگڑی ہوئی باتیں
گیا جو وقت غفلت میں نہ ہو تم اس پہ اب نادم
خودی کو قوتِ ایماں سے آہن پوش کر ڈالو
تقاضہ دورِ حاضر کا یہی ہے ، جنگ ہے لازم
تری راہِ محبت میں جو ہے سنگِ گراں حائل
بکھر کر چور ہوجائے کمر بستہ ہو گر عازم
کرو بیدار خود کو قوم و ملت کو یہ سمجھاؤ
زمانے کو ہلا سکتے ہو تم اے نوجواں مسلم !
مگر کیا ہوگیا ہے میری ملت کے جوانوں کو
کہاں ہیں وہ جو لرزاتے تھے کل تک آسمانوں کو
عزائم کی بلندی سے جہاں کو رام کرتے تھے
جو خاکِ پا میں رکھتے تھے جہاں کے حکمرانوں کو
وہ شاہینی جگر مسلم جواں اب کھو گئے سارے
نکل جاتے جو صحرا میں جلا کر آشیانوں کو
وہ جس نے دہر کو اپنی ثنا خوانی پہ اکسایا
ہمیشہ فخر ہے اس پر امم کی داستانوں کو
جو خوشبو پھوٹ کر آئی تھی صحرائے عرب سے وہ
گلِ گلزار کرتی تھی جہاں کے گلستانوں کو
کبھی سوچا ہے وہ کیا تھی جو شہ زوری سکھاتی تھی
پہاڑوں کے مقابل لا کے رکھتی ناتوانوں کو
وہ فکرِ قوم و ملت تھی اسی سے ہو جہاں میں تم
نہ ہو ملت کی ہمدردی تو ہو تم اس جہاں میں گم
اگر رہنا ہے دنیا میں فلک بوسوں کی بستی ڈھونڈ
نکل کر میکدے سے انجمن میں جام و مستی ڈھونڈ
ستارے ہو تو تُو بھی جگمگا آفاقِ عالم پر
وگرنہ شام ڈھلتے ہی زمیں والوں کی پستی ڈھونڈ
زمانہ غرق ہے دریائے تہذیب و تمدن میں
جو دریا پار کرنا ہے تو راہِ حق کی کشتی ڈھونڈ
تری تصویرِ ہستی بزمِ عالم میں کہیں گم ہے
نکل کر اب صنم خانے سے اے دل اپنی ہستی ڈھونڈ
زمانے سے مگر کیوں تو اے دل! بیزار رہتا ہے
بھلا کیا باغ مالی کے بنا گلزار رہتا ہے
صنم کی اک نگاہِ ناز سے ملتا سکوں تجھ کو
ہراک لمحہ تو شوقِ دید میں بیدار رہتا ہے
کسی لیلی کی الفت میں بناکر بھیس مجنوں کا
زمانے کی نگاہوں میں ذلیل و خوار رہتا ہے
ترے فولادی بازو میں کبھی تلوار ہوتی تھی
مگر افسوس ہے کہ اب کوئی مزمار رہتا ہے
کبھی قدموں تلے اوجِ ثریا کو کچلتے تھے
مگر اب دیکھ حالت بے بس و لاچار رہتا ہے
جلا کر آگ سینے میں تپش سے لطف لیتا ہے
صنم خانے سے دھتکارا، سدا مے خوار رہتا ہے
کشش تصویر میں ہوتی نہیں ہرگز کبھی پیارے
ہاں، پنہا صاحبِ تصویر کا کردار رہتا ہے
ہزاروں شمع جلتی ہیں محبت خانۂ دل میں
نیا ہے عشق تیرا طالبِ گفتار رہتا ہے
حصولِ حسن آرا ہی رہا مقصد ترا اے دل!
جنونِ عشق سے ہر آن تو سرشار رہتا ہے
چلو اب لوٹ چلتے ہیں اسی راہِ وفـا پر پھر
جہاں کا ذرہ بھی مانندۂ کہسار رہتا ہے
حسینوں کی اسیری سے صفت آزاد ہو جاؤ
جہانِ عشق میں پھر خانماں آباد ہو جاؤ
مجھے دیکھو میں تصویرِ جنونِ آشکارا ہوں
جہاں تابی کی ہے خواہش گو ننھا سا ستارا ہوں
جلاکر رنگ و بو کو راکھ کردوں اپنی آتش سے
جوالا دل ہے میرا گرچہ میں ادنی شرارا ہوں
تڑپتی شام جس کی دید کو دولخت ہو بیٹھی
شبِ ظلمت کا قاتل ہے جو وہ صبحِ نظارا ہوں
جہاں بانی مرا مقصد مری طینت میں سلطانی
اٹھاۓ گا زمانہ جس کو سر پر تاجِ دارا ہوں
مری فطرت سلیؑمانی، مرے رگ رگ میں شبؓیری
میں "سیف من سیوف اللہ" میں تیغِ آبدارا ہوں
بیاں میں کیا کروں اپنی طرف سے اے جہاں والو
بشارت خود ہی سن لو مصطفیٰ کی اے گماں والو
ہر اک جانب پیامِ صاحبِ یاسین جائے گا
جہاں کے کاخ و کو میں راکبِِ طاسین جائے گا
نویدِ مصطفائی ہے خلافت ہوگی پھر قائم
جہاں تک صبح جاتی ہے وہاں تک دین جائے گا
جہانِ رنگ و بو میں ہر طرف اسلام پھیلے گا
عرب کے ریگزاروں سے نکل کر چین جاۓ گا
صدائے" لاالہ" سے ساری دنیا گونج اٹھے گی
مٹے گا فتنۂ عزی، حبل غمگین جاۓ گا
شریفوں کو شرافت سے ذلیلوں کو فضیحت سے
کیا جائے گا ایماں پیش اور فتین جائے گا
ہاں منہاجِ نبوت پر خلافت پھر سے قائم ہے
یہ دینِ فاتحِ عـالــم ہی اس دنیا میں دائم ہے
جہاں میں پھر سے چمکے گا محمدﷺ مصطفی کا دیں
مٹے گا کفر دنیا سے رہے گا بس خدا کا دیں

2
97
الحمد

. تصویر ہستی۔ شاہؔی .

سیاست نامہ کے بعد میری دوسری لمبی نظم جو تقریباً سو اشعار پر مشتمل ہے مختلف قوافی اور مختلف ردیف کے پیرائے میں جو گاہے بگاہے تقریباً دو مہینے کی مسلسل جد وجہد کے بعد معرضِ وجود میں آئی چونکہ ناقص خیالات ہوں تو ممکن ہے کہ خامیاں بھی ہونگی ۔
الله رب العزت میرے اس نظم کو قبول و منظور فرمائے اور اس میں دردِ نہاں کو سب پر ہویدا فرماۓ آمین

(المشہود لہ بالاجادہ)
ابو اُمامـه شــؔاہ ارریاوی