نہ ملا کوئی سہارا اُسے ، وہ لوٹ گیا
جب نظر آیا نہ چارا اُسے، وہ لوٹ گیا
گھر سے ملنے کا تجھے ، لے کے ارادہ نکلا
راہ میں کس نے پکارا اُسے ، وہ لوٹ گیا
حادثہ رستے میں پیش آ نہ گیا ہو کوئی
ہو نہ تقدیر نے مارا اُسے ، وہ لوٹ گیا
حالِ دل اُس نے زمانے سے چُھپا رکھا تھا
کس نے بتلا دیا سارا اُسے ، وہ لوٹ گیا
وہ سمجھتا تھا کہ وابستہ ہے قسمت جس سے
جب نظر آ گیا تارا اُسے ، وہ لوٹ گیا
کھیل جیون کا وہ جیتا تھا بڑی مشکل سے
جب کسی اور نے ہارا اُسے ، وہ لوٹ گیا
انتظار اُس نے کیا اُس کو کہیں گے اپنا
کوئی تو کہتا ہمارا اُسے ، وہ لوٹ گیا
تیسرا کو ن یہ آ بیٹھا ہے ہم دونوں میں
نہ ہوا یہ بھی گوارا اسے ، وہ لوَ ٹ گیا
پوچھنے آئیں گے طارق جو انہیں کہہ دینا
غم تھا سینے میں تمہارا اُسے ، وہ لوٹ گیا

0
17