انجم کا ہم نشیں اب کوئی جواں نہیں |
ہو بھی تو فکرِ ملت سے جاوداں نہیں |
وہ قوم آسماں پر کیوں کر کہ جگمگاۓ |
قسمت کے جس کے تارے کچھ ضو فشاں نہیں |
اے دل! اگر گلہ ہو تو کیا کہوں تجھے |
ملت کا، قوم کا تو کیوں پاسباں نہیں |
پہچان اپنی ہستی اے غافلِ زماں! |
دامن میں آج تیرے کیوں کہکشاں نہیں |
فکر و نظر اسیرِ عجمی تخیلات |
قلب و جگر بھی عزم گاہِ مردماں نہیں |
واقف ہے پیچ و خم سے دنیا کے تو مگر |
رمز و نکاتِ قدرت کا رازداں نہیں |
ملت کی فکر لیکن ہے رات دن تجھے |
پر قلبِ مضطرب میں دردِ نہاں نہیں |
پروازِ مرغِ ہستی اونچی بہت ہے تیری |
لیکن ترا نشیمن گردوں نشاں نہیں |
کل تک تو آسماں پر چرچے بہت تھے تیرے |
دردِ امم سے لیکن اب آشنا نہیں |
تیرے نفس سے قائم دنیائے رنگ و بو |
پھر کیوں گلہ تجھے کہ تو رہنما نہیں |
اٹھ باندھ پھر کمر اے صحرا نشینِ ہند! |
یہ دورِ امتحاں کیا تجھ پر عیاں نہیں |
شاہؔی ترے تخیل میں آسماں نہیں |
شمس و قمر ستاروں کا کارواں نہیں |
معلومات