جہاں جس راہ پر وہ پاؤں اپنے مہ جبیں رکھتا |
مرے بس میں اگر ہوتا وہاں اپنی جبیں رکھتا |
کہیں پر کھو گیا گُم ہو گیا بیتا ہؤا ماضی |
اگر پہلے خبر ہوتی خزانے میں کہیں رکھتا |
خدا کا شکر ہے جو بچ گیا ان نازنینوں سے |
نہ جانے حشر کیا ہوتا اگر ان پر یقیں رکھتا |
وہ منظر اور ہی ہوتا خدا گر اس طرح کرتا |
یہاں اپنا فلک رکھتا وہاں میری زمیں رکھتا |
یہی اشرف ہے تو شُکرِ خدا اسفل نہیں بھیجے |
وگرنہ شرم کے دامن پہ گِروی آستیں رکھتا |
خمارِ علم و عرفاں کا نشہ کب مَے سے اترے گا |
اگر کچھ جانتا محفل میں جامِ ساتگیں رکھتا |
ترے مشروب کا گر مجھ کو پہلے علم ہو جاتا |
تو اس ٹیبل کے بیچ و بیچ جانم انگبیں رکھتا |
بجا کہ تم کو وافر حسن سے ربّ نے نوازا ہے |
مگر اے کاش پہلو میں کبھی قلبِ حسیں رکھتا |
معلومات