سر پہ شفقت سے رکھا دستِ دُعا چاہا تھا
میں نے اک شخص کو اوروں سے سوا چاہا تھا
راستہ ڈھونڈنا مشکل تھا ، وہ تاریکی تھی
روشنی کرنے کو بس ایک دیا چاہا تھا
سو گیا تھک کے اگر راہ میں چلتے چلتے
میں نے خوابوں میں بھی اس کا ہی پتہ چاہا تھا
جب نظر مجھ پہ پڑی، مل گیا مقصود مرا
اس کے ہونٹوں پہ تبسُّم ہی ذرا چاہا تھا
پیار کی ایک نظر میرے لئے کافی تھی
اس سے بڑھ کر تو نہیں کوئی نشہ چاہا تھا
اب اسی راہ پہ چلتے ہوئے منزل بھی ملے
اور کیا اس کے سوا میں نے بھلا چاہا تھا
ساتھ دینے کا جو وعدہ تھا نبھایا کیسے
اس نے منصب جو اسے دینا بڑا چاہا تھا
دینے والا تھا خدا جب تو اسی کو مانگا
طارق اس بات پہ نادم نہیں کیا چاہا تھا

0
42