زندگی سے ہمیشہ گلے ہیں
امتحاں کے ابھی مرحلے ہیں
ان سے ملنے کی امید کیوں ہے
اب تو اپنے جدا راستے ہیں
میں جہاں سے چلا پھر وہیں ہوں
وقت کے ہر طرف دائرے ہیں
زندگی بس لٹانے میں گذری
میری دولت مرے تجربے ہیں
اب مجھے ٹوٹنا ہو گا شاہد
اب مقابل کھڑے زلزلے ہیں

0
65