تمہیں آواز دیتی ہے کہیں بلبل چلے آؤ |
بہار آئی چمن میں سب کھلے ہیں گُل چلے آؤ |
قفس میں قید ہیں جو ان سے کیا امید رکھتے ہم |
تمہارے راستے جیسے ہی جائیں کُھل چلے آؤ |
بدلتے موسموں میں کم یقیں ہوتا ہے بارش کا |
مگر ایسی جھڑی میں بھیگ کر بالکُل چلے آؤ |
بڑے عرصے سے وہ ہم سے عجب پُر خاش رکھتے ہیں |
ہمیں اپنا بنانے پر گئے ہیں تُل چلے آؤ |
انہیں امّید ہے شاید کہیں خوابوں میں آ جاؤ |
تبھی سونے سے پہلے پڑھ رہے ہیں قُل چلے آؤ |
ابھی محفل میں رونق ہے ابھی رقصاں ہیں پروانے |
ہیں جب تک ہم یہاں مشعل نہ ہو گی گُل چلے آؤ |
طبیعت آجکل اپنی ذرا نالاں سی رہتی ہے |
تمہارے آتے آتے ہو نہ جائیں قُل چلے آؤ |
انہیں طارق تمہیں ملنا گوارا ہو گیا کیسے |
وہ اب تعریف کے باندھے ہوئے ہیں پل چلے آؤ |
معلومات