الزام دے کے لائے مصیبت تو کیا ہوا
آتی ہے روز نت نئی آفت تو کیا ہوا
ظاہر ہوئے ہیں کیسے سبھی ان کے کاروبار
کہتے ہیں اب کہ کر دی شکایت تو کیا ہوا
صورت تو ان کی دیکھ کے حیراں ہوئے سبھی
آئی ہے سامنے جو یہ سیرت تو کیا ہوا
اس عمر میں بھی عاشقی کا ان کو شوق ہے
آتی ہے جب بتوں پہ طبیعت تو کیا ہوا
تھوڑی سی پی بھی لیں تو دوا اس کو جان لیں
اس پر نہیں ہے ان کو ندامت تو کیا ہوا
اترا لباس ان کا سبھی پارسائی کا
کہتے ہیں دیکھتی ہے جو خلقت تو کیا ہوا
انجام جھوٹ کا تو ہمیشہ بُرا ہوا
سب ان کی کھو گئی ہے جو عزّت تو کیا ہوا
توبہ کا در کھلا ہے جو آجا ئے لوٹ کے
ہو جائے گر کسی پہ بھی رحمت تو کیا ہوا

0
71