میں اور لوگوں کی طرح آج تک بدل نہ سکا |
قدم ملا کے زمانے سے میں تو چل نہ سکا |
وہ زخم زخم بھی صحرا عبور کر آئے |
میں پہلے آبلے کے بعد آگے چل نہ سکا |
وہ اور لوگ تھے جو دل جلا کے ہنستے رہے |
شبِ وصال میں بھی میں ذرا بہل نہ سکا |
وہ تتلیوں کی طرح باغ باغ پھرتے رہے |
میں پہلے پھول کے سحر سے بھی نکل نہ سکا |
وہ اگلی رت میں پچھلی رتوں کو بھول گئے |
میں پہلی چوٹ کے بعد آج تک سنبھل نہ سکا |
معلومات