غمِ ہجراں میں جو اک شہر کو آباد کیا |
ہم کو اچھا وہ لگا جس نے ہمیں یاد کیا |
کچھ تو انجانے میں سرزد ہوئے ایسے بھی عمل |
جن کی یادوں نے ہمیں آج بھی ناشاد کیا |
کس سلیقے سے بھری آہ جو دیکھا اُس نے |
سامنے اس کے جو ہم نے دلِ برباد کیا |
کتنی آسانی سے وہ بھول گئے ہیں ہم کو |
ہم نے مشکل میں انہی کو تو فقط یاد کیا |
کچھ پرندے تو قفس کے کبھی عادی نہ ہوئے |
دے گئے دھوکہ وہ جب بھی انہیں آزاد کیا |
آتے جاتے وہ کڑی ہم پہ نظر رکھتے ہیں |
ہم نے کب اپنی حفاظت کا تھا ارشاد کیا |
سب یہاں وصل کی امّید لئے بیٹھے ہیں |
اس بہانے سے کبھی ہم نے بھی دل شاد کیا |
طارق آ جاتے وہ محفل میں تو دل کھل اٹھتا |
ہم نے تنہا یہاں رہنے پہ نہیں صاد کیا |
معلومات