جب تلک ان کی گلی میں رہے بیزار رہے۔۔
مدتوں ہم کسی کے واسطے یوں خوار رہے۔۔
زخم دینے کی وہ رفتار میں پرکار رہے۔۔
مست اس بان میں وہ خوگرِ پندار رہے۔۔
ہم کچھ اس طرح سے حالات سے دو چار رہے۔۔
لاش پر چیل کی جو گردشِ سیار رہے۔۔
رنج سے آنسو مری آنکھ میں ہر بار رہے۔۔
کہ ہم ان موج و تلاطم میں بھی فنکار رہے۔۔
ترچھی نظروں سے ہمیں دیکھتے ہیں وہ کیا بات۔۔
تیر تو ہوتا ہے وہ سینے کے جو پار رہے۔۔
ڈھاۓ ہیں ظلم و ستم خود پہ بہت فرقت میں۔۔
کہیں تو اپنے ہی ہم جسم کے غدّار رہے۔۔
چین سے ہم تو کسی رات نہیں سو پاۓ۔۔
عالمِ رنج میں بادہ لیے سرشار رہے۔۔
ہے عجب سلسلۂ خصلتِ بادہ خوری۔۔
اک پیالہ پییں تو دوسرا درکار رہے۔۔
ولولہ عشق نے بے طرح کیا ہم کو ہلاک۔۔
چار ناچار ہو کے عشق میں نادار رہے۔۔
اب اذیت میں مزہ آنے لگا ہے ہم کو۔۔
تو خدا سے ہے دعا یونہی یہ آزار رہے۔۔
جوشِ حیرت کا نہیں فائدہ کوئی اے زیؔب۔۔
ہو کے کیوں پورا کوئی وعدۂ عیار رہے؟

165