دن گذارا ہے اک سزا کر کے
خود سے بجھڑا ہوں میں وفا کر کے
یہ ہی ہونا تھا جو ہوا آخر
خود کو تجھ میں یوں مبتلا کر کے
میرے ذمے مری تباہی ہے
تجھ کو مانگا تھا بس دعا کر کے
اے ستم گر مرا قصور تھا کیا
کیا ملا تجھ کو کربلا کر کے
جان سے جا کے ہی ملے گا سکوں
زہر پی لوں گا اب دوا کر کے
پیار میں نے کیا تھا بس شاہد
اس نے بدلہ لیا دغا کر کے

0
59