اگر زُلفوں کے پیچ و تاب کا سامان ہو جائے |
تو شاید زندگی کا درد بھی آسان ہو جائے |
فقیرِ بے نشیں بیٹھا ہؤا ہے تیری چَوکھٹ پر |
کبھی تو اس کا بھی پُورا کوئی ارمان ہو جائے |
نہ بیڑی کے لئے پیسہ نہ روٹی کے لئے آٹا |
کہیں ایسا نہ ہو پھرحشر کا چالان ہو جائے |
اگر وہ آج پھر زلفیں بکھیریں آگئے باہر |
مجھے خدشہ ہے ہر اک متّقی دربان ہو جائے |
ادھر لعل و جواہر ہیں اُدھر کُٹیا غریبی کی |
مجھے لگتا ہے ساری زندگی ویران ہو جائے |
دوائی لینے کو جسموں کا دھندا کرنا پڑتا ہے |
مرابابا نہ ہو توزندگی ویران ہو جائے |
شرافت بال کھولے پیٹتی ہے برسرِ محفل |
جسے روٹی نہیں مِلتی وہ اب شیطان ہو جائے |
معلومات