اگر زُلفوں کے پیچ و تاب کا سامان ہو جائے
تو شاید زندگی کا درد بھی آسان ہو جائے
فقیرِ بے نشیں بیٹھا ہؤا ہے تیری چَوکھٹ پر
کبھی تو اس کا بھی پُورا کوئی ارمان ہو جائے
نہ بیڑی کے لئے پیسہ نہ روٹی کے لئے آٹا
کہیں ایسا نہ ہو پھرحشر کا چالان ہو جائے
اگر وہ آج پھر زلفیں بکھیریں آگئے باہر
مجھے خدشہ ہے ہر اک متّقی دربان ہو جائے
ادھر لعل و جواہر ہیں اُدھر کُٹیا غریبی کی
مجھے لگتا ہے ساری زندگی ویران ہو جائے
دوائی لینے کو جسموں کا دھندا کرنا پڑتا ہے
مرابابا نہ ہو توزندگی ویران ہو جائے
شرافت بال کھولے پیٹتی ہے برسرِ محفل
جسے روٹی نہیں مِلتی وہ اب شیطان ہو جائے

0
58