پانی کی لہروں میں چہروں کے تھِرکتے خدّوخال
جس طرح مفلس کی بانہوں میں تڑپتے نَو نہال
اس طرف پیرانہ سالی کی نقاہت کا بخار
اس طرف بچّوں کے شِکمِ جبر کی زندہ مثال
کٹ گئی ہے عمر ساری این و آں کی دوڑ میں
نہ کوئی شغل و لطافت نہ کوئی زہرہ جمال
کیا ہو عمرِ خضر بھی ان کو اگر مل جائے تو
رات دن کا رونا دھونا عسرت و غم سے نڈھال
کل مہاجن تھا مرا جو اب بھی ان داتا وہی
مفلس و نادار کی بیٹی کی عصمت پائمال
الہدیٰ بھیجی گئی ہے نسلِ آدم کے لئے
میرے منہ میں خاک لیکن دیکھتے ہیں خال خال
لم یزل ہے ذاتِ اقدس پر ز راہِ نکتہ سنج
غربت و افلاس بھی لگتے ہیں مجھ کو لازوال
اک ہی رونا ہے مرا صبح و مسا شام و سَحَر
پیٹ بھر روٹی دوا دارُو سکولوں کا وبال
ختم ہوں گے کب یہ جھنجھٹ کب ڈھلے گی شامِ غم
کب چلے گی بادِ پُرنم کب بہارِ برشگال
ہاتھ پھیلائے کھڑھے ہیں کب سے راہوں میں امید
کر دے پُوری خواہشیں اے کامل و اکمل کمال

47