کوئی کفّارہ نہیں دیتا گناہوں سے نجات |
کان سننے کے ہوں جس کے وہ سنے گا میری بات |
زید کے ہو درد سر میں، بکر لے آنکھوں کو پھوڑ |
درد سے پھر زید پا جائے بھلا کیسے نجات |
ہاں اگر کفّارہ دے سکتا گناہوں سے نجات |
پاک ہو جاتی نہ پھر ،یورپ کے لوگوں کی حیات؟ |
ہر طرف ابرِ گنہ کو دیکھ کر ایسا لگے |
اس عقیدے سے گناہوں کی طرف ہے التفات |
سب نے دنیا سے ہے جانا اپنے ہی عملوں کے ساتھ |
کیا بھلا ہو گر ملے ہم کو صلیبوں سے نجات |
دل یقیناً پا ک ہو سکتا ہے گر ہو گا یقیں |
پیش ہونا ہےخدا کے سامنے ، بعدِ وفات |
جب یقیں میں دل ترقیّ کی طرف ہو گامزن |
وہ گنہ سے پاک ہوگا دیں پہ ہو جس کا ثبات |
علم سے پائے یقیں جیسے، دُھویں سےآگ پر |
ہو سماعت کا تواتر، ہو کوئی معقول بات |
فطرتِ انساں بھی سمجھے فرق سچ اور جھوٹ میں |
دیکھ لو تعلیمِ قرآں میں ہیں فطرت کے نکات |
جس کو ہو جائے خدا کی ذات پر علم الیقیں |
سوچتا ہے کس نے پیدا کی یہ ساری کائنات |
پر یقیں جو علم سے حاصل ہو وہ پختہ نہیں |
خود نہ دیکھے آنکھ سے جب تک وہ سارے معجزات |
جب تلک دیدار ہو گُفتار کی صورت تو ہو |
ہے خدا زندہ اگر، کرتا یقیناً ہے وہ بات |
اس خدا نے جب یہ بتلایا صراطِ مستقیم |
اِس پہ چل کر ، اُس سے باتیں ، کیا نہیں ہیں ممکنات؟ |
اُس کو سن کر ، گر ہوا عین الیقیں ،تو خوب ہے |
آخری درجہ تو ہے حقّ الیقیں کے تجربات |
آزمائش ، ابتلا ہوں گے قضا و قدر کے |
لوگ جب پیچھے پڑیں گے تلخ ہو گی پھر حیات |
صبر سے جو کام لیں گے امتحاں کے وقت میں |
پھر صدا آئے گی اب میری رضا ہے تیرے سات |
تُو مرے بندوں میں داخل ہے مری جنّت میں چل |
ڈر نہیں تُجھ کو ، ابد تک پا گیا ہے تُو حیات |
معلومات