ابتدا میں تو ہر اک انسان کو بھائے کبھی |
اتّباعِ نفسِ امّارہ پہ آ جائے کبھی |
پوری آزادی سے کر گزرے جو اُس کا چاہے دل |
اِس سے بڑھ کر جینے کا مقصد نہ وہ پائے کبھی |
پھر شعور اس کا ترقی جب کرے کچھ خُلق میں |
نفسِ لوّامہ مدد کو اس کی آ جائے کبھی |
وہ ملامت بھی کرے ،کوئی بدی سرزد جو ہو |
اور نیکی چھوڑ دینے پر وہ پچھتائے کبھی |
ایک عرصے تک رہے وہ ایسی حالت میں مگر |
چینِ دل ، آرامِ جاں پھر بھی نہ وہ پائے کبھی |
استقامت سے روانہ جب رہے منزل کو وہ |
راستے کی کوئی مشکل روک نہ پائے کبھی |
مُطمئنّہ سے اسے آواز آئے ایک دن |
اب خدا راضی ہے تُجھ سے، دور کب جائے کبھی |
اس کے بندوں میں تُو داخل ہو کہ جنَّت ہے یہی |
اس کی مرضی ہے یہی وہ راضی ہو جائے کبھی |
طارق اب تُو مطمئنہّ کے لئے کوشش تو کر |
اس جہاں میں ہے یہی جنَّت ، جو ہاتھ آئے کبھی |
معلومات