میں اس سے کیسے کہوں اس کے اختیار میں ہوں |
میں درد حد سے گزرنے کے انتظار میں ہوں |
نہ میں مسیحا نہ زاہد نہ شیخ ہوں نہ امام |
ہر ایک چیز سے منکر میں انتشار میں ہوں |
نہ دل میں چین ہے اور روح میں قرار نہیں |
کہ میں خزاں میں نہیں ہوں نہ ہی بہار میں ہوں |
تمام عمر یہ خواہش کہ سو سکوں اک پل |
ہر ایک لمحہ یہاں پر میں اضطرار میں ہوں |
کہیں بھی راستہ اپنا نظر نہیں آتا |
کہیں پہ دھند میں ہوں اور کہیں خمار میں ہوں |
میں خود سے آنکھ ملا ہی نہیں سکا اب تک |
میں اپنے آپ سے شاہد ابھی فرار میں ہوں |
معلومات