میں اس سے کیسے کہوں اس کے اختیار میں ہوں
میں درد حد سے گزرنے کے انتظار میں ہوں
نہ میں مسیحا نہ زاہد نہ شیخ ہوں نہ امام
ہر ایک چیز سے منکر میں انتشار میں ہوں
نہ دل میں چین ہے اور روح میں قرار نہیں
کہ میں خزاں میں نہیں ہوں نہ ہی بہار میں ہوں
تمام عمر یہ خواہش کہ سو سکوں اک پل
ہر ایک لمحہ یہاں پر میں اضطرار میں ہوں
کہیں بھی راستہ اپنا نظر نہیں آتا
کہیں پہ دھند میں ہوں اور کہیں خمار میں ہوں
میں خود سے آنکھ ملا ہی نہیں سکا اب تک
میں اپنے آپ سے شاہد ابھی فرار میں ہوں

76