درد جو جی میں اتر جاتا ہے
خون آنکھوں سے ٹپک آتا ہے
دھوپ سنولاتی نہیں عاشق کو
عشق کے سوز میں بھن جاتا ہے
تجھ کو چھونا تھا مگر پھر سوچا
گل تو چھونے سے بھی مرجھاتا ہے
لوگ پڑھتے ہیں آیتیں ڈر میں
دل ترا نام ہی دہراتا ہے
حجر بس ایک ہی تو لمحہ ہے
مدتوں کیسے یہ تڑپاتا ہے
تو جو رہتی ہے گماں میں میرے
دل حقیقت سے الجھ جاتا ہے
یہ صعوبت ہے اسی کی حیدر
درد جو جی میں اتر جاتا ہے
از قلم: حیدر

0
33