مسکرانا زیرِ لب مہمان کا اچھا لگا
جو تعارف بھی ہوا ، انجان کا اچھا لگا
دھیرے دھیرے آ گئے حالات سارے سامنے
مجھ کو تو اخلاق اس انسان کا اچھا لگا
اس کی شخصیّت نمایاں تھی بڑے اوصاف میں
مجھ کو ہر پہلو سے وہ ایمان کا اچھا لگا
جب بھی دیکھا غور سے میں نے اسے اب کیا کہوں
حسن کا تو ذکر کیا احسان کا اچھا لگا
کون باریکی میں جا کر دیکھتا ہے حالِ دل
دور بیں تھا وہ مجھے پہچان کا اچھا لگا
میکدے میں جب گیا مجھ کو پذیرائی ملی
پی کے آیا جب ، نشہ عرفان کا اچھا لگا
میں نبھاؤں گا کیا ہے اس سے جو عہدِ وفا
وہ تو اپنے عہد اور پیمان کا اچھا لگا
طارق اب سارے کے سارے ہم ہوئے اس پر فدا
اس کی خاطر اب تو سودا جان کا اچھا لگا

0
14