تری جُدائی کا دکھ ہی نہیں جو سہنا پڑا
جو دل پہ ہجر میں گزری ہے اب وہ کہنا پڑا
جو ظلم ڈھائے کسی نے ہے داستان الگ
ستم تو یہ تھا مجھے دور تُجھ سے رہنا پڑا
بپھرتی موج کو ساحل تو روک لیتا ہے
جو دل بھرا تو اسے چشمِ تر سے بہنا پڑا
اگرچہ دیکھا کئی بار چاند گہنا ئے
یہاں تو چاند کے قدموں میں دیکھا گہنا پڑا
کہے گا کیسے بھلا جھوٹ سامنے اس کے
وہاں جو دیکھ لیا آئنہ برہنہ پڑا
بنائے سپنوں میں لوگوں نے یونہی تاج محل
تو پھر یہ شکوہ ہے کیسا کہ سب کو ڈھہنا پڑا
ہوئے ہیں سرخرو وہ بھی کہاں یہاں طارق
تمام عمر جنہیں امتحاں میں رہنا پڑا

0
47