تیرگی چھائی تھی جیسے شبِ دیجور بنے
اک چراغ اُترا ہمارے لئے پُر نور بنے
عشق کب عقل کے پیمانے پہ پورا اترے
حسن کہلائے وہی دل کو جو منظور بنے
دل میں پالی ہی نہیں کوئی بھی خواہش ایسی
بن کے حسرت مرے سینے کا جو ناسور بنے
عاجزی دل میں رہے نرم ہو گُفتار سدا
ہم نہیں چاہتے سر ایسا جو مغرور بنے
ہم اسے دوست کہیں کیسے نہ کام آئے جو
چاہئے جب ہو مدد کوئی تو مجبور بنے
ہم تو حیراں ہیں وہ کس طرح سے کرتے ہیں حجاب
بے نقاب آتے ہیں باہر جو ہیں مستور بنے
وہ بھی تعمیر عجب ہو گی خدا کے گھر کی
جس میں معمار نبی ہو نبی مزدور بنے
ہاتھ پاؤں جو سلامت ہیں کیا کیجے کچھ
دیکھتے رہئے نہ یوں دور سے معذور بنے
طارق اتنا تو تقاضا ہے محبّت کا بھی
پیار کیجے تو وفا اپنی بھی مقدور بنے

0
42