اک سوزِ دروں ، دل کے سلگنے کے سبب ہے
یہ روگ ملا کس سے بچھڑنے کے سبب ہے
دیکھے جو کسی کو تو اسے کون سنبھالے
زندہ ہوں جو گو دل کے دھڑکنے کے سبب ہے
اس نیند کے بس خواب ہی دشمن نہیں ہوتے
بے خوابی بھی یادوں میں تڑپنے کے سبب ہے
یہ جسم گیا کعبے کے چکر تو لگانے
پر عشقِ بتاں ، دل کے مچلنے کے سبب ہے
رنگینئ گل دیکھ کے مدہوش نہیں ہم
کچھ نشّہ یہ کلیوں کے مہکنے کے سبب ہے
تاریکئ ماحول میں وہ کیسے چلے گا
کچھ روشنی بجلی کے کڑکنے کے سبب ہے
بادَل کے گرجنے سے مجھے ڈر نہیں لگتا
نم آنکھ تو بارش کے برسنے کے سبب ہے
طارق جو ملیں اس سے تو اندازہ ہو کچھ اور
طاقت تو وہی رسّی پکڑنے کے سبب ہے

0
36