یہ کہانی ہی زندگی کی ہے |
جل کے خود ہم نے روشنی کی ہے |
بھول بانٹے ہیں ہم نے لوگوں میں |
اور کانٹوں سے دوستی کی ہے |
خون کے گھونٹ پی لیے ہم نے |
جب ستمگر نے بے رخی کی ہے |
وہ تو دشمن تھے کیا گلہ ان سے |
دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے |
اب کہانی میں موڑ آئے گا |
میں نے اس بار خود کشی کی ہے |
معلومات