دہلی کے فسادات کا وڈیو کلپ
لُٹ گئی حوّا کی بیٹی اِبنِ آدم مرگیا
ایک کا بازو کٹا اور دوسرے کا سر گیا
کیا ہوئی غالب تری دِلّی خدارا کچھ توبول
مضطرب مضطر بھی ہیں جاوید اختر ڈر گیا
ہرطرف لاشیں ہیں یا کچھ جلتی بُجھتی لکڑیاں
جتنا سرمایہ تھا سارا ایک دن میں سڑ گیا
پھاڑ کر لڑکی کا پلّو کہہ رہا ہے بھاجپا
کہہ دے جاکر باپ سے یہ بھاجپائی کرگیا
منتیں کرتی رہی معصوم بیٹی چھوڑ دے
بس یہی بابا بچے ہیں باقی کُنبہ مر گیا
یہ مرا بھائی بڑا سیدھا ہے اسکو چھوڑ دو
اتنے عرصے میں لپکتا پیٹ میں خنجر گیا
دیکھ کر لاشوں کے ٹُکڑے آگ سے اُٹھتا دھواں
شانتی ہے ہر طرف ،کہتا ہؤا افسر گیا
رات بھر دوشیزگی بٹتی رہی دہلیز پر
نوچ کر بیچارگی ہنستا ہؤا کافر گیا
یہ وہی بھارت ہےجسکی دھوم تھی ہرچارسُو
کیسا ستیاناس اُس کا چائے والا کر گیا
تُم سے پہلے بھی کئی مقتل سجا کر جاچکے
تم نے کیا دیکھا نہیں کس خوف میں ہٹلر گیا
؀ دوسرے شعر کے آخری مصرعے میں مضطر خیر آبادی کا نام ہے جو
بالی وڈ کے مشہور شاعر جاوید اختر کے دادا اور صاحبِ دیوان شاعر تھے

50