ایک مٹی سے بنے ہیں آدمی ، سرو و سمن
مختلف رنگوں کے گُل جن سے بھرے ہر سُو چمن
ہے وہی مٹی نکلتے ہیں اسی سے پھول، پھل
ہے اسی مٹی نے پیدا کر دیا کھائیں جو دھن
ہیں پھلوں کے پیڑ ، جن کے ذائقے سب کے الگ
گھاس اور اشجار نے اُگ کر بھرے ہیں سارے بن
چشمِ مستِ ہر حسیں میں اس کا جلوہ آشکار
زلفِ خم کر کے اشارہ ہے بتانے میں مگن
کیوں نظر آتا نہیں پھر ہر جگہ قدرت کا ہاتھ
جس کی صنّاعی کا مظہر ، دیکھ لو کوہ و دمن

0
22