اے شمس و قمر کوکب و انجم کے محافظ ! |
ہر ذرہ تجھے دیتا ہے تعلیمِ خلافت |
چھوڑو بھی اسے جانے دو اے حسن کے طالب! |
کب تک ترے جلووں میں پلے ناز و نزاکت |
اے مردِ جواں! خود کو ہلاکت سے بچاؤ |
ہے شاہیں جوانوں کے لئے حسن ہلاکت |
تنہائی و فرصت میں ہو مشغول کیوں بیٹھے |
پر شوق جوانوں کو نہیں وقتِ فراغت |
رفعت کی طلب میں ترے قدموں میں فلک ہو |
پیدا ہو تری ذات میں گر حسنِ لیاقت |
دنیا کے سلاطیں ترے جاروب کشوں میں |
اپنا لو مری جان جو وہ طرزِ امامت |
ہر کوئی یہاں منتظرِ فردا ہے مگر کہ |
ہے کوئی نہیں تھامے جو ملت کی قیادت |
اولادِ عزازیل کی یہ سوۓ جبّلت |
انکاری صفت آئینِ قدرت سے بغاوت |
فرزندِ براھیم کی فطرت میں رکھی ہے |
تسلیم و رضا صبر و تحمّل ، و اطاعت |
کہلاۓ گا ہرگز نہ زمانے میں" حنیفا" |
جب تک نہ ہو پیارے تجھے ایثار کی جرأت |
ہر فرد کو ملت کے سماعیؑل کی صورت |
آدابِ تصدّق کہ سکھاتی ہے شریعت |
وہ شفقتِ والد ہے کہ اولاد کی الفت |
بچوں کو بناجاتی ہے جو پیرِ طریقت |
یوں تو ترے نس نس میں محبت کا گزر ہے |
لیکن کہ نہیں تجھ میں ذرا قومی عقیدت |
شیرازہ تری قوم کا بکھرا ہوا ہرسو |
ہے سوۓ نصیبا کہ نہیں کوئی جمیعت |
ممکن ہے کہ اندازِ تکلم نہیں بھائے |
لیکن مرے یارا ! ہے یہی صدق و حقیقت |
گو طرز و ترنم سے پرے شاہؔی غزل ہے |
شاید کہ مؤثر ہو مری شوخ طبیعت |
معلومات