جانے کیا کیا دل پہ گزرتا رہتا تھا
میں جب اپنے آپ سے ڈرتا رہتا تھا
چاند بھی شاید تنہا تھا میری مانند
جب دیکھو وہ مجھ کو تکتا رہتا تھا
جب جب گلیوں میں رونق ہو جاتی تھی
تیرا ذکر تو اکثر چلتا رہتا تھا
میں کمزور ہوا ہوں تیرے جانے سے
ورنہ ہمّت تو میں کرتا رہتا تھا
ساون رت میں بادَل کے آ جانے سے
قطرہ قطرہ پانی گرتا رہتا تھا
کیسے لوگ بھلا دیں تیرے سپنوں کو
سپنوں میں تُو ان پر مرتا رہتا تھا
سب ہی تھے شوقین یہاں رنگ رلیوں کے
بس اتنا تھا رنگ بدلتا رہتا تھا
گیت سنانے تیرے گھر پر آپہنچا
گلیوں میں جو راگ الاپا کرتا تھا
تنہائی میں یاد کسی کی آتی تھی
وہ بھی بیٹھا آہیں بھرتا رہتا تھا
طارق کس نے ماضی کو بدنام کیا
حال تو مستقبل ہی بنتا رہتا تھا

3
107
عمدہ

0
بہت نوازش!

0
محمد فاروق، محمد معین اختر اور ابراہیم ناصر صاحب ! پسندیدگی کا بہت شکریہ

0