جانے کیا کیا دل پہ گزرتا رہتا تھا |
میں جب اپنے آپ سے ڈرتا رہتا تھا |
چاند بھی شاید تنہا تھا میری مانند |
جب دیکھو وہ مجھ کو تکتا رہتا تھا |
جب جب گلیوں میں رونق ہو جاتی تھی |
تیرا ذکر تو اکثر چلتا رہتا تھا |
میں کمزور ہوا ہوں تیرے جانے سے |
ورنہ ہمّت تو میں کرتا رہتا تھا |
ساون رت میں بادَل کے آ جانے سے |
قطرہ قطرہ پانی گرتا رہتا تھا |
کیسے لوگ بھلا دیں تیرے سپنوں کو |
سپنوں میں تُو ان پر مرتا رہتا تھا |
سب ہی تھے شوقین یہاں رنگ رلیوں کے |
بس اتنا تھا رنگ بدلتا رہتا تھا |
گیت سنانے تیرے گھر پر آپہنچا |
گلیوں میں جو راگ الاپا کرتا تھا |
تنہائی میں یاد کسی کی آتی تھی |
وہ بھی بیٹھا آہیں بھرتا رہتا تھا |
طارق کس نے ماضی کو بدنام کیا |
حال تو مستقبل ہی بنتا رہتا تھا |
معلومات