اُلجھا ہوا ہوں مَیں بھی خیالوں کے درمیاں
آہوں کے درمیاں کبھی نالوں کے درمیاں
آنکھوں میں خواب رکھ کے یہ پُوچھے ہیں بیٹیاں
چاندی اترتی ہے یہ کیوں بالوں کے درمیاں
پیچھے پلٹ کے دیکھا تو حیران رہ گیا
بِکھرا پڑا تھا میں کئی سالوں کی درمیاں
مجھ کو تو اِک طرح ہی کے لگتے ہیں رات دن
سب شہر ایک سے ہی ہیں شہروں کے درمیاں
دشمن کے سارے وار ہی خالی چلے گئے
میں نے بھی چال وہ چلی چالوں کے درمیاں
مانی مرے نصیب میں یہ لکھ گیا ہے دوست
پتھر بھی ہوں گے پاؤں کے چھالوں کے درمیاں

0
106