سنا ہے جا رہے ہو اس سے ملنے |
اس سے کہہ دینا |
بہت سی تشنہ روحیں اور بھی ہیں جو |
نہ جانے منتظر کب سے ہیں ملنے کو |
مگر مجبوریاں ان کو |
یہاں آنے نہیں دیتیں |
اُسے کہنا کہ وہ بھی چاہتی ہیں مل کے وہ تُجھ سے |
بجھائیں پیاس آنکھوں کی |
تر و تازہ کریں خود کو |
کہیں کچھ حالِ دل تجھ سے |
سنیں تُجھ سے بھی کیا بیتی |
وہاں پردیس میں رہ کر |
تھی تنہائی، اداسی، فرض، مجبوری |
گئی پھر بھی نہ چہرے سے |
تری جو مسکراہٹ تو |
بھلا ہے راز کیا اس میں |
مگر ہم ہجر کے مارے بھی خوش ہیں دیکھ کر تجھ کو |
کہ تیری رہبری میں قا فلہ آگے |
بڑھا ہے اور |
وہ بڑھتا جا رہا ہے اب |
ملیں گے ہم تجھے اک دن |
وہ دن اب جلد آئے گا |
سمٹ جائیں گے سارے فاصلے جس دن |
ہم اپنی منزلِ مقصود پا کر |
سب سے مل کر |
پھر منائیں گے بہت خوشیاں |
یقیناً مسکرائیں گے |
مقدّر میں لکھا ہے یہ |
تو ہو گا پھر |
نہیں ہے دور وہ دن اب |
ہمیں امّید ہے جلدی |
بہت جلدی |
وہ دن اب آنے والا ہے! |
ملے گا تُو ہمیں آ کر |
معلومات