دیارِ غیر میں ہے ، اُس کو چل کے دیکھتے ہیں
حسد سے کیوں اسے دشمن یوں جل کے دیکھتے ہیں
وہ آ کے بام پہ کرتا ہے اک اشارہ جب
تو لوگ معجزے گھر سے نکل کے دیکھتے ہیں
وہ آئے سامنے تو دیکھنے کی تاب نہ ہو
بھر آئے دل تو وہ پھر آنکھ مَل کے دیکھتے ہیں
ہماری ہو گی جو کل ، آج سے بہت بہتر
ہم اس لئے تو سبھی خواب کل کے دیکھتے ہیں
وہ جس طرح سے بھی دیکھو حسین لگتا ہے
تو بار بار اسے رُخ بدل کے دیکھتے ہیں
” وہ آئنہ ہے ہمارا ہی عکس ہے اس میں “
اسی لئے تو وہ چہرہ سنبھل کے دیکھتے ہیں
ہمیں یقین ہے مل جائے گا وہاں بھی ساتھ
تو اتنے شوق سے رستے اجل کے دیکھتے ہیں
کہیں جو حُسنِ ازل کا بیان ہو طارق
تو لوگ شعر ہماری غزل کے دیکھتے ہیں

0
18