سکوں سے اس کے بنا اب جیا نہیں جاتا |
ستم تو یہ ہے کہ اس سے کہا نہیں جاتا |
ہیں دُکھ ہزار اٹھائے مگر نہ آہ بھری |
یہ دردِ دل ہے جو اب بھی سہا نہیں جاتا |
نہیں ہیں وقت سے پہلے جو مرگ کے قائل |
یہ کون کہتا ہے اُس پر مرا نہیں جاتا |
وفا نہ ہم سے کریں چاہتے ہیں پر تعریف |
قصیدہ ان کا تو ہم سے پڑھا نہیں جاتا |
لکھیں جو سچ تو بُرا مانتے ہیں لوگ مگر |
کہیں بھی جھوٹ تو ہم سے لکھا نہیں جاتا |
ہمارے اشکوں میں گرچہ رچا ہے دل کا لہو |
شہید کا تو لیا خوں بہا نہیں جاتا |
تُو جب سے چھوڑ گیا ہے اداس لگتی ہے |
تری گلی میں تو ہم سے چلا نہیں جاتا |
اداس رہنے کی صورت نہیں کوئی طارق |
خدا ہے ہر جگہ ، تنہا رہا نہیں جات |
معلومات