جسم میں جو یہ جان باقی ہے |
کچھ ابھی امتحان باقی ہے |
وصل کی شب تو ڈھل چکی لیکن |
ہجر کا اک جہان باقی ہے |
جان جانی تھی جا چکی کب کی |
دی مگر یوں کہ شان باقی ہے |
تو ہے موجود میرے پہلو میں |
بس یہی اک گمان باقی ہے |
دل کے جزبات مر گئے ہونگے |
اب لحاظِ زبان باقی ہے |
فتنہ گر چھا گئے زمیں پر اب |
بس خلا ,آسمان باقی ہے |
یار اپنے سبھی خفا مجھ سے |
اب بھی کہتے ہو جان باقی ہے |
اک کسک سی جو دل میں اٹھتی ہے |
اب بھی کوئی نشان باقی ہے |
معلومات