جسم میں جو یہ جان باقی ہے
کچھ ابھی امتحان باقی ہے
وصل کی شب تو ڈھل چکی لیکن
ہجر کا اک جہان باقی ہے
جان جانی تھی جا چکی کب کی
دی مگر یوں کہ شان باقی ہے
تو ہے موجود میرے پہلو میں
بس یہی اک گمان باقی ہے
دل کے جزبات مر گئے ہونگے
اب لحاظِ زبان باقی ہے
فتنہ گر چھا گئے زمیں پر اب
بس خلا ,آسمان باقی ہے
یار اپنے سبھی خفا مجھ سے
اب بھی کہتے ہو جان باقی ہے
اک کسک سی جو دل میں اٹھتی ہے
اب بھی کوئی نشان باقی ہے

0
92