آزاد پنچھی تو اڑانیں بھرتے رہتے ہیں یہاں
پابند ہرگز قید و بندش کے نہ ہوتے ہیں یہاں
جکڑے رہیں زنجیر میں کس کو گوارہ ہو سکے
فطرت پرستی کی فضا، سارے ہی چاہے ہیں یہاں
آوارگی ہے قابلِ نفرت مہذب لوگوں میں
گر ہو شریفانہ روش، عزت بھی پاتے ہیں یہاں
مانا کہ کوئی دور فرسودہ پکارا جا رہا
انساں مگر انساں وہ ہے، جو پیار رکھتے ہیں یہاں
تہذیب کی بنیاد ہم آہنگی پر موقوف ہے
ٹکراؤ ہو تو مسئلے سارے بگڑتے ہیں یہاں
حکمت ہی تو روحِ رواں کی حیثیت رکھے مگر
لمحات صدیوں کی روایت ختم کرتے ہیں یہاں
کب زیب ناصؔر رنجشوں کیساتھ جینا بھی رہے
دو بول الفت کے ہی، پر کافی ہو جاتے ہیں یہاں

0
54