اک کڑا وقت ٹل گیا آخر
اب میں کتنا بدل گیا آخر
وہ سمجھتے تھے اب اٹھوں گا نہیں
گر کے پھر سے سنبھل گیا آخر
دکھ نے پتھر بنا دیا تھا مجھے
اک نظر سے پگھل گیا آخر
جس پہ لکھا تھا تلخیوں کا حساب
ٹکڑا کاغذ کا جل گیا آخر
کب سے چھپ کے میں خود میں بیٹھا تھا
آج خود سے نکل گیا آخر

0
86