میں ٹوٹ پھوٹ چکا تھا سنور گیا کیسے |
خزاں کے موسموں میں میں نکھر گیا کیسے |
مرے وجود کو جکڑے رکھا اندھیروں نے |
مرے نصیب کا مجھ سے اثر گیا کیسے |
تمام عمر یہاں ٹھوکروں کی زد میں رہا |
میں پل صراط سے آخر گزر گیا کیسے |
لکیر ہاتھ میں گہری سفر کی تھی میرے |
میں آ کے اس کی گلی میں ٹھہر گیا کیسے |
وہ کہہ رہا تھا وہ صدیوں سے انتظار میں تھا |
یہ سچ تھا پھر بھی میں خود سے مکر گیا کیسے |
جو بات دل میں تھی وہ دل میں رہ گئی شاہد |
وہ سامنے تھا مرے اس سے ڈر گیا کیسے |
معلومات