میں ٹوٹ پھوٹ چکا تھا سنور گیا کیسے​
خزاں کے موسموں میں میں نکھر گیا کیسے​
مرے وجود کو جکڑے رکھا اندھیروں نے
مرے نصیب کا مجھ سے اثر گیا کیسے
تمام عمر یہاں ٹھوکروں کی زد میں رہا
میں پل صراط سے آخر گزر گیا کیسے
لکیر ہاتھ میں گہری سفر کی تھی میرے
میں آ کے اس کی گلی میں ٹھہر گیا کیسے
وہ کہہ رہا تھا وہ صدیوں سے انتظار میں تھا
یہ سچ تھا پھر بھی میں خود سے مکر گیا کیسے
جو بات دل میں تھی وہ دل میں رہ گئی شاہد
وہ سامنے تھا مرے اس سے ڈر گیا کیسے

42